Sunday, 25 July 2021

چینی گولڈ فش جھیلوں اور دریاؤں کا 'عفریت' کیوں بن رہی ہے؟25 جولائی 2021

 

गोल्डफिश

،تصویر کا ذریعہCITY OF BURNSVILLE

،تصویر کا کیپشن

امریکہ کے منیسوٹا ریاست میں اہلکاروں نے گولڈ فش کو دریاؤں اور جھیلوں میں چھوڑنے کی اپیل کی ہے

اگر آپ اپنے ڈرائنگ روم میں رکھے ایکویریم میں گولڈ فش رکھتے ہیں اور اب ان سے نجات پانا چاہتے ہیں تو آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ اسے باتھ روم میں بہا دیں گے یا آپ اسے قریبی جھیل یا ندی میں لے جا کر چھوڑ دیں گے؟

اگر آپ یہ سب سوچ رہے ہیں تو تھوڑی دیر کے لیے رکیے اور آخر تک اس مضمون کو پڑھیں کیونکہ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ ایسا کر کے ایک 'بلا' پیدا کر سکتے ہیں۔

دوستانہ رویہ رکھنے والی مچھلی، جسے ہم گولڈ فش کہتے ہیں اور جس کا سائنسی نام کراسیس اورراٹس ہے حالیہ برسوں میں دنیا بھر کے دریاؤں، جھیلوں اور دیگر آبی ذخائر میں دیگر آبی جانوروں کے لیے مسئلہ بن چکی ہیں۔

ایکویریم میں ننھی سی نظر آنے والی یہ مچھلی باہر کی دنیا یا جھیلوں میں فٹ بال کے سائز تک بڑی ہو سکتی ہے اور اس کا وزن دو کلو تک بڑھ سکتا ہے۔گوشت خور مچھلی

اس کے سائز اور وزن کی بات چھوڑ دیں تو گولڈ فش کی فطرت دوسری مچھلیوں پر حملہ کرنے کی ہوتی ہے جو کہ مقامی ماحولیاتی نظام کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔

صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی ریاست منیسوٹا کے اہلکاروں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ان مچھلیوں کو جھیلوں اور ندیوں میں نہ چھوڑیں۔

کیلے جھیل میں بڑے سائز کی گولڈ فش دیکھنے کے بعد سرکاری اہلکاروں نے اس مچھلی کو حملہ آور جانور قرار دیا ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق گولڈ فش سب سے پہلے چین میں پائی گئی تھی اور بعد میں یہ پوری دنیا میں پھیل گئی۔ یہ بنیادی طور پر گوشت خور مچھلیاں ہیں۔ جہاں دوسری مچھلیاں مچھر کے لاروا کھاتی ہیں (اس لیے انھیں قدرتی کیڑے مار دوا بھی کہا جاتا ہے) وہیں گولڈ فش کی اصل خوراک ان مچھلیوں کے انڈے ہیں۔

گولڈ فش

،تصویر کا ذریعہPA PHOTO/DAVID JONES

،تصویر کا کیپشن

گولڈ فش ایک گوشت خور فش ہے

بیماریوں کا خطرہ

گولڈ فش کھانے کی تلاش میں ایک ایسا طریقہ استعمال کرتی ہے جس سے پانی کی نچلی سطح میں بہت زیادہ ہل چل ہوتی ہے۔ اس سے ایک اور مسئلہ پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ پانی کے نیچے موجود کیچڑ اوپر آنا شروع ہوتی ہے اور اس جگہ پر موجود غذائی اجزا پانی پر تیرنے لگتے ہیں۔

اس سے گولڈ فش کو کھانا ملتا ہے۔ دریاؤں، جھیلوں یا پانی کے دیگر ذرائع میں گولڈ فش کو چھوڑنے سے وہاں پہلے سے موجود بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جن سے وہ لاعلم ہوتی ہیں ہیں۔

گذشتہ چند برسوں قبل آسٹریلیا میں اس پر ایک مطالعہ ہوا تھا۔ محققین نے ایک سال کے لیے 15 گولڈ فش کی نقل و حرکت پر نظر رکھی۔ اس کے بعد محققین کی ٹیم نے گولڈ فش کی سفر کرنے کی صلاحیت کے بارے میں بھی نئی دریافت کیں۔

تحقیق میں کہا گیا ہے ’ہم نے دریافت کیا کہ اس مچھلی کو ان کے مالکان نے جن دریاؤں میں چھوڑا تھا وہاں سے دلدل کے علاقے میں آئیں جہاں انھوں نے انڈے دیے۔‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ گولڈ فش ایک سال میں 230 کلو میٹر سے زیادہ لمبا فاصلہ طے کر سکتی ہے۔


No comments:

Featured post

منظور احمد پشتین درہ آدم خیل پہنچ گئے ہیں

Mushtarika Awaz News  پشتون تحفظ مومنٹ کے صدر  منظور احمد پشتین درہ آدم خیل میں کل افسوسناک واقعے میں شہید ہونے والے  ولایت شاہ حسین آفریدی ...