![]() |
بلاول کا امریکہ میں نیوز کانفرنس کر رہا تھا
۔پیپلزپارٹی سے ہمیشہ سیاسی اختلاف رہا اور آگے بھی رہے گا۔لیکن جتنا کمال انداز میں وہ وہاں پر بولا ہے،سن کے مزا آیا۔ افغانستان انڈیا امریکہ کے بارے میں مشکل ترین سوالات کے انتہائی مدلل انداز میں جواب دئیے اور پاکستان کی خوب ترجمانی کی ۔ بالکل وہی جو میری اور آپ کی آواز ہے۔
انڈیا بارے کشمیر کا موقف جس انداز میں پیش کیا اس سے بھٹو کی یاد تازہ ہو گئی کہ کیسے انڈیا وہاں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل رہا ہے۔ کیسے ہوسٹیلٹی کو انکریج کر رہا ہے اور کیسے وہاں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ان حالات میں مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں گو کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری تجارت ہو تعلقات اچھے ہوں لیکن ان اقدام کے ساتھ جو انڈیا نے کشمیر میں لئیے ان پر کیسے ڈائیلاگ کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
اس نیوز کانفرنس کا سب سے خوبصورت حصہ وہ تھا جب سوال کیا گیا کہ عمران خان کے رشیا دورے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں تو بلاول نے کہا کہ میں اس دورے کا دفاع کروں گا کیونکہ پرائم منسٹر کو بالکل معلوم نہیں تھا کہ روس یوکرائن پر حملہ کرنے والا ہے۔ہم کسی کنفلکٹ کا حصہ نہیں بننا چاہتے صرف امن کا حصہ بن سکتے ہیں ہم نے کئی عشروں جنگیں دیکھی ہیں اور ہم اب تھک چکے ہیں۔ تمام معاملات کو ڈائیلاگ سے اور ڈپلومیسی سے حل کرنا چاھئیے۔
ایک طرف خواجہ آصف اور مفتاح اسماعیل تھے جو وہاں جا کر عمران خان کو طالبان اور خود کو لبرل ثابت کرتے رہے جبکہ دوسری طرف یہ نوجوان جو نہ صرف ملک کا مقدمہ لڑ رہا لیکن سیاسی اختلاف کے باوجود انٹرنیشنل لیول پر سابقہ وزیر اعظم کا دفاع کر رہا۔بدقسمتی سے نون لیگ کے پاس خارجہ پالیسی کے حوالہ سے ایک بھی ایسا نام نہیں۔نواز شریف نے اتنی اہم وزارت اپنے پاس رکھی ہوئی تھی جو بنا پرچی کے ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا تھا۔
یہ ہوتی ہے ڈپلومیسی،اسے ہی خارجہ پالیسی کہتے ہیں موقع محل کے مطابق ایک بیلنس ایپروچ ٹون کے ساتھ زبان اسلوب کا خیال رکھنا ہی ایک آرٹ ہے۔
ویلڈن بلاول بھٹو زرداری
No comments:
Post a Comment