1940 کنگ گیٹ کوہاٹ....
تاریخ گواہ ہے کہ انگریزوں نے جب 1857 میں ماسوائے قبائل پورے برصغیر پاک وہند پر قبضہ کردیا. تو اس وقت پورے برصغیر میں واحد قبائل رہ گئے تھے کہ وہ آنگریز حکومت کو کسی قیمت پر اپنے قبائلی علاقوں پر قبضے سے باز رکھتے تھے.
دلیر اور غیرمند قبائل نے اپنے قبائلی علاقے تو انگریز سے محفوظ رکھے تھے مگر اسکے ساتھ ساتھ قبائل کے قریبی شہری علاقوں یعنی کوہاٹ اور پشاور میں انگریز کے فوجیوں اور آثاثو پر شدید حملے کرتے تھے. قبائل کے ان حملوں کا مقصد ایک تو انگریز حکومت کو کوہاٹ اور پشاور کے عوام پر مزید ظلم سے باز رکھنا تھا اور دوسرا اسکو اپنے دباؤ میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ وہ قبائل پر دوبارہ شدت سے حملوں کا سوچ نہ کر سکے..
انگریز حکومت نے قبائل کے خوف سے کوہاٹ کے مین بازار کو دو دروازوں تک محدود کردیا گیا تھا. تاکہ قبائل کئی اطراف سے شہر پر حملہ نہ کر سکے. کوہاٹ کا یہ کنگ گیٹ اور تحصیل گیٹ آنگریز حکومت کا بنایا ہوا گیٹ ھے. جو آج بھی موجود ہے.
درہ آدم خیل گاوں کوہیوال کے بزرگ مرحوم ملک شیر مست تھانیدار نے درہ آدم خیل کی آواز کے ایک انٹرویو میں اپنے وفات سے کچھ سال قبل کہا تھا کہ جب 1912 میں کوہاٹ بازار پر اورکزئی ایجنسی اور درہ آدم خیل قبائل نے حملہ کیا تھا. تو اس وقت میں اپنے باپ کے ساتھ کوہاٹ گیا تھا. تو وہاں کئی سرکاری املاک اور انگریزوں کے ماتحت بڑے بڑے ہندوؤں کا دکانیں لوٹ لئے تھے. ملک شیر مست نے کہا کہ پورا کوہاٹ سٹی میں تمام سامان ٹوٹ پھوٹ کر دیا گیا تھا یا جلایا گیا تھا. بہت سے لوگوں نے وہ سامان مال غنیمت سمجھ سے اٹھا کر لے گئے تھے. ملک شیر مست نے کہا کہ اس وقت میرا عمر بہت کم تھا اسلئے میں نے صرف ایک کپڑے کا تان روڈ سے اٹھا کر گھر لے آیا تھا.. ملک شیر مست نے کہا اسطرح کئ بار قبائل نے کوہاٹ پر حملے کئے تھے. جسکی خوف سے بعد میں انگریزوں نے کوہاٹ بازار کو قبائل سے محفوظ رکھنے کے لئے دو بڑے بڑے گیٹ لگا دیئے. تاکہ رات کے وقت بازار کو مکمل بند کر کے محفوظ کیا جائے...
یادرہے برصغیر پاک و ہند یعنی موجودہ ہندوستان اور پاکستان میں واحد قبائل ھے جس پر انگریز حکومت کے تمام حملے پسپا ہو کر ناکام ہوئے تھے. اور اپنا تاریخ اسطرح سجھا دیا کہ آج تک قبائل پر کسی ملک نے قبضہ نہیں کیا ھے. قبائل کو اللہ تعالیٰ نے پیدائشی آزاد اور خودمختار بنایا ہے. اسلئے آج بھی قبائل اپنی آزادی پر کسی سے سمجھوتہ نہیں کرتا.
قبائل کو دین اسلام کے بعد اپنا دوسرا بڑا پسندیدہ عمل اپنا آزادی اور رسم رواج ھے. جسکی دفاع قبائل اپنا فرض سمجھتے ہیں.
No comments:
Post a Comment